مکی ٹی وی ٹو پر خوش آمدید دوستو آپ نے خلافت عثمانیہ کے سلاطین اور شہزادوں کی داستانیں ضرورسنی ہوں گی آج ہم آپ کو عثمان غازی کے فرزند علاوالدین پاشا کی سوانح حیات کے بارے میں بتائیں گے امید ہے آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا
علاوالدین کو اردن علی یا علاوالدین پاشا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے آپ سوگوت میں پیدا ہوئے عثمان غازی کے یہ بیٹے ان کی بیوی بالا خاتون سے تھے تاریخی حیثیت سے دیکھا جائے تو اورھان غازی اور علاوالدین پاشا کے آپس میں اختلافات تھے جو کہ بالا خاتون اور ملحون خاتون کی وجہ سے ہوئے تھے اوریہ عثمان غازی کے بڑے بیٹے تھے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب عثمان غازی کی وفات ہوئی تو اورھان غازی نے اپنے بڑے بھائی علاوالدین کو تخت سنبھالنے کی پیشکش کی مگر انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کی صلاحیتوں کو خود سے بہتر مان کر تخت اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کردیا اور خود اس کے ساتھ دیگر انتظامات سنبھال کر وزیر بن گئے
عثمان غازی کے بیٹے
دوستو عثمان غازی کے دو بیٹے تھے ایک کا نام علاوالدین تھا اور دوسرے کا نام اوھان غازی ان دونوں میں سے ایک خلافت عثمانیہ کا سلطان بنا اور دوسرا وزیر
آپ کے پاشا لقب کی وجہ کہی جاتی ہے کہ بڑے بھائی جو حکومت میں شامل ہو اسے پاشا کا لقب دیا جاتا تھا کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ علاوالدین کی پیدائش 1280 ء ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ 1282ء ہے کورولش عثمان سیریز میں علاوالدین کو اورھان غازی کا چھوٹا بھائی بنا کر پیش کیا گیا ہے جو کہ ایک غلطی ہے
مگر سیریل کو چلانے اور دلچسپ بنانے کے لیے یہ سب کیا گیا ہے علاوالدین پاشا کے بچپن کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات تاریخ میں موجود نہیں ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب خلافت عثمانیہ کا قیام کیا گیا تھا تو اس وقت کوئی بندہ بھی وہاں موجود سرداروں کا تعارف کچھ خاص لکھتا نہیں تھا اور تقریبا چار سو سال بعد مورخین کو باقاعدہ یہ کام سونپا گیا اس وقت موجود معلومات ناکافی ہونے کے باعث بہت سارے جنگجو بے نام ہی رہے ہیں
علاوالدین شیخ ادابالی کی خدمت میں حاضر رہتے
علاوالدین کا زیادہ تر وقت اپنے نانا یعنی شیخ ادابالی کے ساتھ گزرتا تھا وہ تخت و تاج کے بجائے خانقاہ کو زیادہ پسند کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے حکومت لینے سے انکار کردیا تھا مگر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک جنگجو نہیں تھے بلکہ میدان جنگ کے عظیم سپاہی تھے ان کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا تھا
Alaeddin Pasha History In Urdu
لیکن بعض مورخین کہتے ہیں کہ وہ میدان جنگ کے بجائے سلطنت کے انتظامی امورقانون سازی اور فوج کی تربیت کرنے میں زیادہ وقت گزارتے جب عثمان غازی کا انتقال ہوا تو سب کو لگا کہ تخت حاصل کرنے کے لیے دونوں بھائی کے درمیان جنگ شروع ہونے والی ہے مگر ایسا نہیں ہوا اور شیخ ادابالی کی تربیت رنگ لائی اور علاوالدین پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ میرے والد عثمان غازی نے اپنا جانشین اورھان غازی کو مقرر کردیا تھا
اس پر اورھان غازی نے کہا کہ ہم سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں ایک حصے کو تم سنبھالو دوسرے کو میں مگر علاوالدین اس بات پر راضی نا ہوئے اور اس عظیم سلطنت کو اپنے بھائی لیے چھوڑ دیا اور کبھی بھی تخت و تاج کے لیے بغاوت یا سازش نہیں کی یہ ان دونوں بھائیوں کا اتفاق ہی تھا کہ اس عظیم سلطنت کو ایک نہیں دو باصلاحیت دماغ ملے تھے
سلطنت عثمانیہ کے پہلے وزیراعظم کے طور پر
جنہوں نے آگے چل کر اپنی ریاست کی سرحدوں میں اضافی کیا اوریورپ تک جا پہنچے پہلے تو علاوالدین تخت سے جدا ہوکر شیخ ادابالی کے پاس رہنے لگے مگر جب ایک مہم کی فتح کے بعد اورھان غازی سے ان کی ملاقات ہوئی تو اورھان غازی نے کہا کہ بھائی میرے وزیر بن جاو اور میرے ساتھ سلطنت کے امورمیں مدد کرواو یہ وہ وقت تھا جب عثمانیہ سلطنت کا باقاعدہ وجود بن گیا تھا اور سلجوق سلطنت کے زیر سایہ کام کرنا ترک کردیا گیا تھا
اس کے بعد سلجوقوں کے نام کا خطبہ بھی نہیں پڑھا جاتا تھا بلکہ عثمانیوں کے نام کا خطبہ شروع ہوگیا تھا بعض مورخین کہتے ہیں کہ یہ عثمان غازی کے دور میں ہوا تھا لیکن دراصل حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے اورحان غازی کا ہاتھ اور محنت تھی علاالدین پاشا نے سلطنت کی بہتری کے لیے تین تجاویز پر عمل کروایا جن میں معاشی پالیسی مالیاتی نظام عثمانی حکمرانوں کا لباس اور ینی چری فوج کا قیام 1328ء میں اورھان غازی کے نام کے چاندی کے سکے جاری کیے گئے یہ بھی علاوالدین کے مشورے سے کام کیا گیا
ینی چری فوج کا قیام اور دیگر اصطلاحات
علاوالدین پاشا نے ہی پہلی مرتبہ فوج کے عہدے داروں کے مختلف لباس تشکیل کروائے جس میں عام سپاہی کا لباس الگ اور ہر رینک کے فوجی کا لباس اس حساب سے ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ ان کی اصطلاحات کے باعث انہیں فوج کی جانب سے پاشا کا لقب دیا گیا شہزادے علاوالدین پاشا نے فوج کو ایک جگہ رکھنے کے بجائے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا اور ہر علاقے کی فوج سے اس علاقے کی ترقی میں کام لیا اس طرح اگر جنگ نا بھی ہورہی ہوتی تو بھی سپاہی مالی بوجھ نہیں تھے بلکہ وہ ہمیشہ کچھ نا کچھ کرتے رہتے
تاریخ گواہ ہے جس حکمران نے بھی اس طرح کی فوجی پالیسی اپنائی ہے وہ ضرور کامیاب ہوا ہے یہ سب اصطلاحات کرنے کے بعد انہوں نے وزارت عظمی کے عہدے سے استعفی دے دیا برسا میں ایک مسجد اپنے نام سے بنوائی جو 1335ء میں مکمل ہوئی یہ ترکی طرز کی سادہ مگر بلند ترین مسجد تھی ان کی وفات کے متعلق کچھ خاص معلومات نہیں ہے بس اتنا درج ہے کہ انہوں نے اپنی آخری زندگی ایک قلعے میں گزاری اور وہیں انتقال کیا اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے یہ علاوالدین کی فوجی اصطلاحات ہی تھیں جنہوں نے اس سلطنت کو دوام بخشا
دوستو یہ تھی ہماری آج کی پوسٹ ہم نے خلافت عثمانیہ کی تاریخ پر مزید بھی آرٹیکلز لکھے ہیں آپ یہاں کلک کرکے ان کا مطالعہ کرسکتے ہیں