سلطان نورالدین زنگی کی عشق رسول میں گزاری گئی زندگی
سلطان نورالدین زنگی رحمۃ اللہ کی زنگی کے واقعات جنگی مہمات اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ آج ہم آپ کو سنائیں گے
عماد الدین زنگی کے گھر سترہ شوال پانچ سو اکیس ہجری بمطابق فروری گیارہ سو اٹھارہ عیسوی کو طلوع شمس کے وقت حلب میں سورج کے ساتھ ایک ایسا محتاب بھی طلوع ہوا جس کا نام اس کے والد نے نورالدین رکھا اور وہ حقیقت میں نورالدین محمود بن گیا
سلطان نورالدین زنگی کی پیدائش
وہ گیارہ سو اٹھارہ میں عراق کے شہر تقرید میں پیدا ہوئے اور ترک زنگی خاندان کے رکن تھے تاریخ نے اسے الملک العادل السلطان نورالدین محمود زنگی کے نام سے یاد کیا سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ سپہ سالار ایک عالم با عمل سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پابند ایک عادل اور منتظم حکمران تھے اسلاف امت نے سلطان کو خلیفہ راشد صادق کے نام سے یاد کیا ہے
وہ امام اعظم ابوحنیفہ کے مقلد تھے
سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ فقہی مذہب کے اعتبار سے امام العائمہ سراج الامہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مقلد تھے سلطان رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ حنفی کی خوب ارشاد فرمائی اور رافضیت کا خوب بیڑا غرق کیا علامہ ابو المقدس اخبار نوریت والصلاہ میں لکھتے ہیں کہ نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ طویل نماز ادا کرتے دن میں وظائف کرتے رات کو عشاء کی نماز کے بعد سو جاتے اور آدھی رات کے وقت اٹھ جاتے وضو فرماتے اور صبح تک نوافل ادا کرتے تھے
پھر آپ کی سواری آ جاتی اور آپ سلطنت کے کاموں میں مشغول ہو جاتے سلطان رحمۃ اللہ علیہ نے ساری زندگی میدان جہاد میں گزاری آپ کو فلسطین اور بیت المقدس آزاد کروانے کی تمنا جنون کی حد تک تھی کے باوجود بھی سلطان کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی میدان جہاد میں بھی اللہ کی بارگاہ میں باقاعدگی کے ساتھ سر مسجود ہوتے ساری ساری رات دعاؤں میں گزار دیتے
سلطان نورالدین زنگی کی روز مرہ کی زندگی
علامہ ابن اسیر فرماتے ہیں کہ نورالدین زنگی راتوں کو بہت زیادہ نماز ادا کرتے اللہ سے دعا اور استغفار کرتے تلاوت قرآن پاک فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام علیہم رضوان کے بارے میں آتا ہے رات کو عبادت کرتے اور دن کو شاہسوار ہوتے یعنی جہاد کرتے یہ معقولہ حضرات صحابہ کے بعد سلطان الدین زنگی پر مصداق آتا ہے آپ نے ساری زندگی عوام و قوم کی حقیقت میں خدمت کی عوام کے مسائل خود سنتے دمشق کے لوگ آپ پر جان نثار کرتے تھے
آپ عوام کے دلوں میں بستے تھے اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ ابن کثیر جیسے محدث لکھتے ہیں کہ ایک بار جب نورالدین زنگی بیمار ہوئے تو پوری سلطنت شام بیمار ہو گئی جب آپ صحت یاب ہوئے تو لوگوں میں شدید خوشی کی لہر دوڑ گئی گویا کہ سلطنت اسلامیہ میں ایک بار پھر جان آ گئی ہو
دوستو اندازہ لگائیں کہ ایک حکمران سے قوم کی اتنی شدید محبت آج کل کے حالات دیکھ کر تو کسی حکمران سے ایسی محبت کا تصور بھی محال ہے سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ صرف ایک سپہ سالار یا عادل حکمران ہی نہیں بلکہ ایک عالم شریعت, حافظ, فقیہ اور محدث تھے. جب آپ کے والد عماد الدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ صلیبیوں کے ساتھ جہاد میں تھے.تو آپ بھی ان کے ساتھ ایک سپاہی اور عالم کی حیثیت سے تھے.
علمی مقام
متعدد بار کئی مسائل میں آپ نے اپنے والد سے اختلاف کیا اور انہیں مسئلہ بتایا اس پر آپ کے والد بہت خوش ہوتے اور آپ کی رائے اور فتوے کو قبول فرما کر حکم جاری فرماتے آپ فقہی مذہب کے اعتبار سے حنفی تھے لہذا آپ نے فقہ حنفی کی خوب ارشاد فرمائی لیکن آپ بالکل بھی محتسب نہ تھے علمی اور فکری اختلاف رائے کی قدر کرتے تھے آپ نے جہاد کے موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف فرمائی
لیکن افسوس کہ وہ چھپ نہ سکی اور فی الحال ہمیں اس کا کوئی مختوطہ بھی نہ مل سکا آپ کی تصنیف کا نام الجہاد فی الفضل الجہاد ہے امت میں جن کو آپ کی کتاب کا مختوطہ یا کوئی قلمی نسخہ میسر آ سکا انہوں نے خوب استفادہ فرمایا ابن نہاس نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الجتہات فی الفضل الجہاد سے استفادہ کیا اور زنگی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب کے حوالے سے روایات نقل فرمائی ہیں
یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ سلطان نورالدین زنگی کی کتاب ہمیں نہیں مل سکی شائع نہیں ہوئی قلمی نسخہ حاصل کرنے کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ دوستوں نورالدین زنگی بارہویں صدی کے ایک ممتاز مسلم حکمران تھے۔ نورالدین زنگی مقدس سرزمین صلیبیوں کے خلاف اپنی فوجی مہمات کے لیے مشہور ہیں۔ انہیں گیارہ سو چھیالیس میں حلب کی حکمرانی وراثت میں ملی۔
جنگی مہمات
اور اس نے صلیبیوں کے خلاف مسلم علاقوں کو متحد کرنے کی مہم شروع کی۔ گیارہ سو سینتالیس میں اس نے اناپ کی جنگ میں صلیبیوں کو شکست دی۔ ایڈیسیا کے عیسائی بادشاہ کو قتل کیا۔ اور انتاکیہ کے لاطینی سرپرست کو گرفتار لیا۔ نورالدین زنگی نے اپنے علاقے کو بڑھانا جاری رکھا۔ گیارہ سو چون میں دمشق پر قبضہ کیا اور صلیبیوں کو علاقے سے باہر نکال دیا۔ اس نے مصر میں شیعہ فاطمی خاندان کے خلاف بھی جنگ لڑی۔
اور گیارہ سو انہتر میں قائرہ کا کنٹرول سنبھالنے میں بھی کامیاب ہوا۔ اپنی عسکری محمد کے علاوہ نورالدین زنگی فن اور ادب کے بھی سرپرست تھے۔ انہوں نے متعدد تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ اور مشہور شاعروں اور دانشوروں کی تخلیقات کی سرپرستی کی۔ نورالدین زنگی دور مسلم دنیا میں استحکام اور خوشحالی کا دور تھا
وہ اپنی تقوی حکمت اور انصاف کے لیے جانے جاتے تھے نور الدین زنگی فن تعمیر کا بہت بڑا سرپرست تھا اور اس نے اپنی مملکت میں متعدد مساجد اور مدارس اسلامی سکول کی تعمیر کا کام سونپا ان میں سب سے مشہور دمشق کا مدرسہ النوریا ہے جو گیارہ سو ستاسٹھ میں مکمل ہوا اور آج بھی کھڑا ہے
امت مسلمہ کے حقیقی حکمران اور لیڈر
مجموعی طور پر نورالدین زنگی مشرق وسطی کی تاریخ کی ایک اہم شخصیت تھے اور مسلم دنیا میں ان کی خدمات کو بھی منایا جاتا ہے نورالدین زنگی نہ صرف ایک ماہر فوجی کمانڈر اور ایک ماہر سیاست دان تھے بلکہ وہ اپنی ذاتی خوبیوں کے لیے بھی مشہور تھے وہ اپنی رعایا کے لیے فیاض اور ہمدرد کے طور پر جانے جاتے تھے اور وہ اکثر اپنے دشمنوں پر رحم کرتے تھے اپنی کامیابیوں کے باوجود نورالدین زنگی کو اپنے دور حکومت میں بے شمار چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا اسے صلیبیوں فاطمیوں اور متعدد مقامی بغاوتوں سے مقابلہ کرنا پڑا اور وہ مسلسل اپنی حکمرانی کو وسعت دینے اور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ان چیلنجوں کے باوجود نورالدین زنگی ایک پائیدار میراث چھوڑنے میں کامیاب رہے۔ انہیں ایک عادل حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جو صلیبیوں کے خلاف مسلم دنیا کو متحد کرنے اور خطے میں استحکام اور خوشحالی کا دور قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کی فوجی کامیابیوں نے صلاح الدین کے ذریعے یوروشلم پر دوبارہ قبضہ کرنے کی راہ ہموار کی۔
اور ان کے فنون و ادب کی سرپرستی نے سیکھنے اور سکالرشپ کی ثقافت کو فروغ دینے میں مدد جو آج تک برقرار ہے وہ ایک ہنر مند فوجی کمانڈر بھی تھے جو نظم و ضبط تنظیم اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھتے تھے انہوں نے اپنی فوجوں میں نئے ہتھیار اور حکمت عملی متعارف کروائی اور محتاط منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ذریعے بہت بڑی صلیبی فوجوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے
سلطان نورالدین زنگی نے مدارس قائم کیے
انہوں نے متعدد مدارس کی بنیاد رکھی اور علماء اور شاعروں کے کام کی سرپرستی کی جس سے اسلامی تعلیم و ادب کی ایک بھرپور میراث پیدا کرنے میں مدد ملی جو آج تک برقرار ہے طور پر نورالدین زنگی ایک پیچیدہ اور کثیر وجاہتی شخصیت تھے۔ جنہوں نے مشرق وسطی کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایک فوجی کمانڈر سیاستدان اور فنون لطیفہ کے سرپرست کے طور پر ان کی میراث نے خطے پر ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
اور دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے متعدد اصلاحات متعارف کروائیں۔ جن کا مقصد غربت اور عدم مساوات کو کم کرنا تھا۔ جن میں ہسپتالوں یتیم خانوں اور دیگر خیراتی کا قیام شامل ہے وہ اپنی بادشاہت میں عیسائی اور یہودی برادریوں کے ساتھ احترام کے ساتھ برتاؤ کے لیے جانے جاتے تھے
فوجی حکمت عملی
اور انہوں نے اپنی انتظامیہ میں غیر مسلموں کو بھی اعلی عہدوں پر تعینات کیا اپنی عسکری اور سیاسی کامیابیوں کے علاوہ نورالدین زنگی ایک ماہر شاعر اور خطاط تھے وہ اپنی خوبصورت لکھاوٹ اور عربی اور ترکی دونوں زبانوں میں خوبصورت شاعری لکھنے کی صلاحیت کے لیے جانے جاتے تھے ان کی شاعری اکثر محبت روحانیت اور فطری دنیا کے موضوع سے نمٹتی ہے.
نورالدین زنگی کی میراث دنیا بھر کے لوگوں کو خاص طور پر مسلم دنیا میں متاثر کرتی ہے. انہیں ایک عادل اور دانشمند حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے. سماجی انصاف مذہبی رواداری اور فنون لطیفہ کے لیے ان کی وابستگی نے مشرق وسطی کی تاریخ پر ایک لازوال نشان چھوڑا ہے.
سلطان نورالدین زنگی کے عشق رسول کا واقعہ
اور آج بھی لوگوں کو متاثر کر رہا ہے. یہاں نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک بہت مشہور واقعہ عرض کرتا ہوں. جس سے اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ سلطان الدین زنگی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کس مقام پر فائز تھے؟ صلیبی جنگوں کے دوران صلیبیوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اقدس نکالنے کی کوشش کی۔
سلطان نورالدین زنگی کا خواب
نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ ایک رات سو رہے تھے۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نورالدین دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا اور ساتھ ہی حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے دو اشخاص کے چہرے بھی دکھائے نورالدین زنگی کی اچانک آنکھ کھل گئی آپ نے قاضی کو بلایا اور تعبیر پوچھی قاضی صاحب نے فورا مدینہ منورہ حاضری دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کا کہا
سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ چند خاص افراد کو لے کر رات کے اندھیرے میں تیز رفتار گھوڑوں کے ذریعے مدینہ منورہ روانہ ہو گئے مدینہ منورہ پہنچ کر سلطان نے مدینے کے گورنر سے بات کی اور ان دو افراد تلاش شروع ہو گئی جن کے چہرے دکھائے گئے تھے لیکن وہ دو افراد نہ مل سکے بالآخر سلطان کو ایک تدبیر سوجی اور اعلان کروایا کہ اگلے دن سلطان تمام مدینہ منورہ کے افراد نے رقم تقسیم کریں گے سب افراد کو دعوت عام ہے
لہذا اگلے دن مدینہ کے تمام لوگ آنا شروع ہو گئے سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ انہیں رقم دیتے جاتے اور دیکھتے جاتے جب سب لوگ واپس چلے گئے تو مدینہ کے گورنر سے پوچھا کہ کیا وہ دو شخص نہیں آئے آپ نے کہا نہیں اور ان سے پوچھا کہ مدینہ کا رہائشی باقی رہتا تو نہیں؟ گورنر نے عرض کی کہ سلطان دو درویش ہیں انہیں دولت سے لگاؤ نہیں۔ وہ اپنی جھونپڑی میں ذکر کرتے رہتے ہیں۔ وہ نہیں آئے۔
یہودیوں کی سازش
سلطان نے فورا حکم دیا کہ ان کی طرف چلو۔ جب سلطان ان کی جھونپڑی میں پہنچے تو وہ دونوں ذکر کر رہے تھے۔ سلطان ان دونوں کو دیکھ کر ٹھٹک گئے اور فورا پہچان لیا کہ یہ وہی دونوں ہیں جن کے چہرے دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے ان سے تفتیش شروع کر دی اور جب ان کی جھونپڑی کی تلاشی لی گئی تو وہاں ایک سرنگ نظر آئی جو قبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جا رہی تھی۔ ان دونوں نے اقرار کر لیا وہ صلیبیوں کے بھیجے ہوئے جاسوس ہیں۔ اور ان کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم نکالنا تھا۔
سلطان نے فورا ان دونوں کے سر قلم کر دیے اور قبر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارد گرد سیسہ پلائی دیوار بنا دی تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔ اس واقعے سے سلطان نورالدین زنگی کی بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مقبولیت کا علم ہوتا ہے۔
اور بارگاہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مقبولیت بغیر عشق کے نہیں ملتی۔ دوستوں سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کی شدید خواہش تھی کہ وہ میدان جنگ میں شہید ہوں لیکن اللہ نے انہیں بستر پر وفات عطا کی۔ لیکن مؤرخین محدثین تمام نے آپ کو شہید لکھا۔ اور آپ شہید کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے کہ مصداق آپ کو سب نے شہید ہی لکھا۔
اگر آپ مزید موضوعات پر ہمارے آرٹیکلز پڑھنا چاہتے ہیں تو ابھی ان تصاویر پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں