خلافت عثمانیہ کی ملکہ بالا خاتون کا تعارف
بالا خاتون کا شمار اسلام کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے خود کو اسلام کی جدوجہد میں وقف کردیا تھا بات کی جائے بالا خاتون کے والد کی تو وہ ایک صوفی بزرگ تھے جن کا نام شیخ آدابالی تھا یہ عظیم بزرگ ارطغرل غازی کے دوست بھی تھے
اور اسی دوستی کے باعث ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان غازی کو تربیت کے لیے شیخ ادابالی کے پاس بھیجا گیا جب عثمان غازی جوان ہوئے تو شیخ ادابالی کی بیٹی سے شادی کا اظہار کیا جس پر اول تو شیخ نے منع کردیا لیکن بعد میں عثمان غازی کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے انہوں نے عثمان غازی کے ساتھ بالا خاتون کا نکاح کردیا
شادی سے پہلے بالا خاتون اپنے والے کے ساتھ خانقاہ میں ہوتی تھیں جہاں وہ مسلمان بچیوں کو دینی و اخلاقی تربیت دیا کرتی تھیں اور جب ان کی شادی ہوئی تو وہ قائی قبیلے کے اگلے سردار یعنی عثمان غازی کی بیوی کے طور پر قبیلے میں داخل ہوئیں یہ بات قائی خواتین میں سے بعض کو زرا اچھی نا لگی
کیونکہ ہر کوئی چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی عثمان جیسے مضبوط سردار کی بیوی بنے اسی وجہ سے آغاز ہی سے بالا خاتون کو قبیلے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بعد ازاں جب عثمان سردار بنا تو بالا خاتون نے اپنے ساتھ غلط رویہ اختیار کرنے والی خواتین کو معاف کردیا
بالا خاتون کی اولاد
مورخ کہتے ہیں کہ بالا خاتون کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام علاالدین پاشا تھا ہم تفصیلا علاوالدین کا ذکر ایک پوسٹ میں کرچکے ہیں بالا خاتون اپنے شوہر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہیں کئی مرتبہ عثمان غازی کے ساتھ جنگوں میں بھی شریک ہوئیں بعض مورخین کہتے ییں کہ بالا خاتون کا اصل نام رابعہ بالا خاتون تھا اوران سے عثمان غازی کی کوئی اولاد نہیں ہورہی تھی
Bala Khatoon History in Urdu
جس وجہ سے عثمان غازی نے ملحون خاتون سے شادی کی لیکن بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ملحون خاتون سے شادی اولاد کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سیاسی اتحاد اور عثمان غازی کی چاہت کی وجہ سے ہوئی تھی دراصل خود سے کچھ بھی لکھنا مبالغہ آرائی ہوگی کیونکہ عثمانی سلطنت کے اوائل دور کی تاریخ کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اپنے واقعات لکھنے کا رواج نہیں تھا اوریہی وجہ ہے کہ آج ہم کئی بڑے بڑے جنگجو کرداروں سے ناواقف ہیں وہ جنگجو بے نامی کی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے
رابعہ بالا خاتون اور ملحون خاتون کا اختلاف
بالا خاتون اور ملحون خاتون کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ ان کا آپس میں اختلافات رہا کرتا تھا اور یہی اختلاف ان کے بیٹوں میں بھی منتقل ہونے والا تھا جس کا خدشہ شیخ ادابالی کو ہوا تو انہوں نے عثمان غازی سے علاوالدین کو خانقاہ بھیجنے کا کہا جس پر عثمان غازی شیخ کی اس دور اندیشی کو سمجھ گئے اور لاکھ مخالفت کے باوجود علاالدین خانقاہ چلے گئے
جس کا فائدہ یہ ہوا کہ شیخ کی باتوں سے علاالدین کی شخصیت نکھر کر سامنے آئے اور بڑا بھائی ہونے کے باوجود انہوں نے تخت اپنے چھوٹے بھائی اورھان غازی کے سپرد کرکے خود وزیر بننا قبول کیا اور تاریخ ان بھائیوں کی محبت اور اتحاد کو یاد کرتی ہے کہ جنہوں نے محض تیس سال کی محنت سے خلافت عثمانیہ کو اس قابل بنا دیا تھا کہ دنیا کی سپر پاور بھی خلافت عثمانیہ سے ٹکر لینے سے گھبراتی تھی اور تقریبا ایک صدی کے بعد ہی یورپ کا دل یعنی قسطنطنیہ فتح ہوگیا
دوستو ہم نے سلطان محمد فاتح اور دیگر خلافت عثمانیہ کی اہم شخصیات پر بھی آرٹیکلز لکھے ہیں آپ ان تصاویر پر کلک کرکے انہیں پڑھ سکتے ہیں