Ottoman Empire

عثمان غازی نے اپنے زندگی میں کتنے قلعے فتح کیے؟

السلام علیکم ناظرین کرام مکی ٹی وی ٹو کی طرف سے آپ سب کو خوش آمدید میری آج کی پوسٹ انتہائی اہم تاریخی پوسٹ ہے اور میری کافی عرصے سے کوشش تھی کہ اپنی وبب سائٹ کے وزٹرز کے لیے ایسی پوسٹ لاؤں جس میں عثمان غازی نے اپنی زندگی میں جتنی بھی جنگیں لڑیں ان کا مختصر ذکر ہو

تاکہ آپ لوگ جان سکیں کہ عثمان میں ہم اب تک کون کون سی تاریخی جنگیں دیکھ چکے ہیں اور عثمان غازی نے اپنی زندگی میں کن کن قلعوں کو فتح کیا تھا ناظرین کرام بارہ سو اکیاسی میں عثمان بے جب قائی قبیلے کے سردار منتخب ہوئے تو انہوں نے اقتدار ملتے ہی بازنطینی عیسائی سلطنت کے سرحدی علاقوں کو فتح کرنا شروع کر دیا اور ان بازنطینی علاقوں پر حملہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عثمانی علاقے کے بالکل ساتھ تھے

عثمان غازی کی ابتدائی جنگیں

شروع میں عثمان بے کی کارروائیاں دفاعی تھیں یعنی کہ بازنطینی قلعہ دار سلجوکی سلطنت کے سرحدی علاقوں پر حملے کیا کرتے تھے اور سلجوقی سلطان کے سرحدی بے کی حیثیت سے عثمان غازی کو ان کے خلاف جنگیں لڑنی پڑتی لیکن اپنی امارت کے اعلان کے بعد عثمان بے نے یہ جنگیں اپنی امارت کو وسیع کرنے کے لیے لڑیں

تو عثمان بے نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی جنگ جو سے لڑی اس کا نام ارمنی ویلی کی جنگ تھا یہ جنگ عثمان بے اور ایناگول کے تکفور آیا نکولا کے درمیان لڑی گئی اور اس جنگ کا سال بارہ سو تراسی ہے اس جنگ میں عثمان بے کے ساتھ ایک سو بیس جنگجو تھے اور اس جنگ سے کچھ ہی عرصہ پہلے عثمان بے اپنے قبیلے کے سردار بنے تھے

آیا نکولا سے عثمان غازی کی جنگ

عثمان بے سرحدی علاقوں کے معائنے کے لیے پہاڑوں کی طرف جا رہے تھے کہ آیا نکولا کو خبر مل گئی اور اس نے گھات لگا کر حملہ کر دیا اور اس جنگ میں عثمان کے بھائی ساوچی بے کا بیٹا بے ہوجا شہید ہو گیا لیکن عثمان بے اس گھات سے بچ نکلے اور بے ہوجہ کو ہی عثمانی تاریخ میں کوچہ ساروحان بے کہا جاتا ہے

Youtube

یعنی کہ یہ ساوچی بے کے ایک ہی بیٹے کے دو نام ہیں عثمان بے کی دوسری جنگ کلوچہسار کی جنگ تھی جس میں انہیں فتح حاصل ہوئی تھی اور یہ عثمان بے کی زندگی کی پہلی فتح تھی یہ جنگ بارہ سو چراسی میں لڑی گئی اور اس جنگ میں عثمان بے کے ساتھ تین سو جنگجو تھے

بارہ سو چھیاسی میں عثمانیوں نے ایک بڑی اور تیسری جنگ ایکش جے کے علاقے میں لڑی جسے دومانج کی جنگ کہا جاتا ہے اس جنگ میں عثمان بے کے مقابلے میں دو تکفوروں نے اتحاد کر لیا تھا جن میں اناگول کا تکفور اور کراچحصار کا تکفور شامل تھے عثمان بے نے یہ جنگ بھی جیت لی لیکن ان کے بھائی اس جنگ میں شہید ہو گئے اور اسی جنگ کے بعد عثمان بے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بازنطینیوں پر حملوں میں تیزی لے آئے

سامسا چاوش اور کوسے مہال سے عثمان غازی کا اتحاد

ان اتحادیوں میں سامسہ چاوش اور ان کا بھائی اور قابل ذکر ہے اس کے علاوہ کوسے مہال بھی شامل ہےجب کہ بارہ سو اٹھاسی میں کراچحصار کی فتح عثمان کے حصے میں آئی ناظرین اکرام کراچی حسار قلی کی فتح ایک بہت بڑی فتح تھی

جس کے بعد عثمان غازی کو سلجوق سلطان کیکوباد سوئم کی طرف سے حضرت عثمان غازی المرزبان حارث الحدود عالی الجاہ عثمان شاہ کا خطاب ملا اور اسی طرح بے کا لقب بھی عطا کیا گیا جب کہ اس آسک شہر اور کے گرد عثمان بے کی فتح کی گئی تمام زمین انہی کے نام کر دی گئی اور ایک خصوصی حکم جاری کر کے عثمان بے کو ہر قسم کے ٹیکس سے معاف کر دیا

عثمان غازی کو سلجوق سلطنت کی طرح سے ملنے والے انعامات

جب کہ سلجوقی سلطان نے عثمان بے کی طرف بہت سے تحفے بھی بھیجے جس میں سونے کا جنگی پرچم توغ سونے کی تلوار چاندی کی زین اور ایک لاکھ درہم شامل تھے اور عثمان بے نے درسن فقی کو کراچہ حصار قلعے کا قاضی اور پولیس چیف مقرر کر دیا اور یہ کراچی حصار قلعہ تھا جس پر جرمیاں قبیلے کے سردار یعقوب بے کی بھی نظریں تھیں لیکن عثمانیہ نے اسے پہلے فتح کر لیا اس عزت افزائی نے عثمان کے حوصلے میں اضافہ کیا اور انہوں نے اس کے بعد دو بڑی فتوحات کی

ان میں کیونیک فتح قلعے کی فتح کراکی قلعے کا علاقہ شامل ہے بارہ سو اٹھانوے یا بارہ سو ننانوے میں بیلیچک کا تکفور جو کہ عثمان غازی کی بڑھتی طاقت سے پریشان تھا تو اس نے عثمان غازی کو اپنے بیٹے کی شادی پر بلایا جو کہ یارحصار تکفور کی بیٹی سے کی جا رہی تھی

لیکن اس کا ارادہ یہ تھا کہ راستے میں عثمان بے کو شہید کر دیا جائے لیکن حرمان کایا قلعہ جو کہ خفیہ طور پر مسلمان ہو چکا تھا اور عثمان غازی کا دوست تھا اس نے عثمان غازی کو اس تمام منصوبے کے متعلق بتا دیا اور عثمان بے نے ان کی چال کے اندر ایک اور چال چلنے کا پلان بنایا وہ اس طرح کے عثمان غازی نے چالیس جنگجوؤں کو عورتوں کا لباس پہنایا اور انہیں بیلیچک قلعے میں اپنے ساتھ لے آئے اور ان کی مدد سے قلعہ فتح کر لیا

ہیلوفیرا کا قبول اسلام اور نیا نام نیلوفر خاتون

جب کہ یار حصار قلعے کی طرف سے دلہن کو لے کر جو قافلہ آ رہا تھا تو اس پر حملے کی ذمہ داری عبدالرحمن غازی کو دی گئی جنہوں نے اس قافلے حملہ کیا اور دلہن جس کا نام ہولوفیرا پھرا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا اور عثمان بھائی نے اپنے بیٹے اور حان بے کی شادی اس سے کر دی دلہن نے شادی کے موقع پر اسلام قبول کیا اور اس کا نام نیلوفر خاتون رکھا گیا

اور یوں ایک ہی دن میں دو قلعے عثمان بھائی کے قبضے میں آگئے جب کہ اسی سال یعنی بارہ سو ننانوے میں ہی ایناگول کی طرف ترگت الپ کو بھیجا گیا انہوں نے ایناگول کا محاصرہ کیا اور شدید جنگ کے بعد یہ قلعہ فتح کر لیا اور ناظرین اکرام ان فتوحات کے بعد عثمان بھائی نے فیصلہ کیا کہ سلجوکی سلطنت سے الگ ہو کر اپنی الگ سلطنت کی بنیاد رکھی جائے

کیونکہ بارہ سو تینتالیس میں کوسے داغ کے مشہور زمانہ جنگ میں جب منگولوں نے سلجوقی سلطنت کو بری طرح شکست سے دوچار کیا تھا تو اس کے بعد سلجوکوں کی سلطنت ان کی نہیں بلکہ منگولوں کی باج گزار تھی جس کا سلطان منگولوں کی مرضی سے چنا جاتا تھا اور عملا سلجوکی سلطنت کی کوئی حکومت نہ تھی

ترک قبائل عثمان غازی کے جھنڈے تلے

اس لیے عثمان بے نے یہ فیصلہ کیا اور ان کے اس اعلان کے بعد ترکمان قبیلے جو منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر پناہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے وہ عثمانی سلطنت میں آ کر پناہ لینے لگے اور اس طرح عثمان غازی کو جنگوں میں لڑنے کے لیے جوان مل گئے اور ان ترکمانوں کو وطن اس کے بعد ناظرین اکرام کوبپورو حصار قلعے کے محاصرے کی باری آئی حالانکہ اس وقت عثمان کا ٹارگٹ فلیلیولگوس شہر تھا

لیکن کوپبرو حصار میں ان کے قلعہ آیا اور اس کے ساتھ ہی ینی شہر کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا جو کہ ورثہ کا ضلع تھا اور اسی حوالے سے ایک تاریخ اسماعیل حقی چارشیلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک ترک شہر اس میدان میں بسایا گیا اور وہاں ایک ہیڈ کوارٹر بھی بنایا جو کہ میدان جنگ سے قریب تھا اور اسی کو دارالحکومت بھی قرار دے دیا گیا

ینی شہر کی فتح اور عثمان غازی کے نام کے سکے

جبکہ پندرہویں صدی کے ایک اور تاریخ دان محمد نشری اپنی کتاب کتاب جہاں نما میں لکھتے ہیں کہ اسی سال عثمان غازی کے نام کا پہلا خطبہ دیا گیا جو کہ شیخ ادب علی کے شاگرد کارمان فقیر نے دیا اور ینی شہر کے فتح کے بعد ہی عثمان غازی کے نام کے سکے بنانے کا آغاز کیا گیا اور اس سکے کا نام آکچا تھا تیرہ سو عیسویں میں کی جنگ ہوئی جس میں قلعہ قیون حصار فتح کیا گیا

ستائیس جولائی تیرہ سو دو وہ سال ہے جب آتی ہے وہ جو کہ عثمانی تاریخ کی سب سے بڑی اور اہم جنگ سمجھی جاتی ہے اور اس کا نام ہے کی بائیکوس کی جنگ یہ جنگ تیرہ سو دو میں لڑی گئی اور اس میں عثمان غازی کے ساتھ پانچ ہزار جنگجو تھے اور ان کے سامنےبازنطینیوں کے بھیجے گئے وہ دو ہزار جنگ جو تھے جن کے کمانڈر کا جارج بوزلان نام تھا

ترکوں نے اس جنگ میں بازنطینیوں کے ڈیفنس لائن توڑ دی اور انہیں نکومیڈیا کے علاقے کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کر کے یہ جنگ جیت لی اور اسے عثمانی کی پہلی باضابطہ جنگ بھی کہا جاتا ہے تاریخ کے صفحات میں عثمان بے اور بازنطینیوں کے درمیان لڑی جانے والی ایک اور جنگ کا نام بھی ملتا ہے جسے بیٹل آف چوبان قلعے کہا جاتا ہے

عثمان غازی کی فتوحات

لیکن کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ بیفیوز کی جنگ کا ہی دوسرا نام ہے جبکہ اس سے اگلے ہی سال یعنی تیرہ سو تین میں دن بوس کی جنگ ہوئی یہ بھی عثمان بے اور بازنطینی سلطنت کے درمیان ہوئی یہ وہی جنگ تھی جس میں بازنطینی شہنشاہ نے الخانی منگولوں کے ساتھ عثمان بے کے خلاف اتحاد کیا۔

اور محمود غازان کی شادی اپنی ایک بیٹی کے ساتھ کرنے کی پیشکش بھی کی۔ اس جنگ میں با زنطینی فوج ورثاء میں اکٹھی ہوئی اور اس نے ینی شہر کی طرف مارچ کیا۔ تاکہ نیکیا کا علاقہ جس کا اس وقت عثمان بے نے محاصرہ کر رکھا تھا اسے چھڑائیں۔ عثمان بھائی یہ خبر سنتے ہی حرکت میں آئے۔ اور دونوں فوجوں کا آمنا سامنا دنبوس کے پہاڑی علاقے میں ہوا۔ اس جنگ میں دونوں فوجوں کا بہت جانی نقصان ہوا۔

بورصہ شہر کی فتح

اور عثمان بے کی طرف سے ان کے بھائی گندوز بے کا بیٹا گدوگو شہید ہوا۔ لیکن ناظرین اکرام یہ جنگ برصہ کی فتح کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی۔ پھر مرمرا جگ بھی فتح ہوا۔ اس کا پرانا نام تو مرمرا حصار تھا لیکن پھر اسے مرمرا جگ کہا جانے لگا۔ اس جنگ کے بعد ناظرین اکرام اگلی فتح قتع قلعے کی فتح تھی۔

اس کے بعد کیسٹل قلعہ کی فتح عثمانیوں کے حصے میں آئی۔ اس کے بعد تیرہ سو سات میں لےقع قلعہ فتح کیا گیا۔ پھر لبلوج قلعے کی فتح ہوئی۔ اس کے بعد مکیجے شہر فتح ہوا۔ اور پھر اس کے یاسوکہوا شہر فتح ہوا اس کے بعد باری آتی ہے آکہسار قلعے کی فتح کی اس کے بعد اورھانلی علاقہ بھی فتح کیا گیا اسے فتح تو اورھان غازی نے کیا تھا لیکن اس کی فتح عثمان بے کے ہی دور میں ہوئی تھی اور یہ تیرہ سو پچیس عیسوی میں فتح ہوا

عثمان غازی کے فتح کردہ قلعوں کی تعداد میں مورخین کا اختلاف

جس کے بعد آخر میں ناظرین اکرام تیرہ سو سترہ میں عثمان بے نے بورصہ کا محاصرہ کیا جو کہ چھ یا سات سال تک رہا اور اسی محاصرے کے دوران تیرہ سو ستائیس میں عثمان بے کی وفات ہوئی تو ناظرین کرام کی پوسٹ میں میں نے آپ لوگوں کو عثمان کی تئیس یا چوبیس فتوحات کے بارے میں بتایا ہے

اور یہ وہ فتوحات ہیں جو تاریخ سے ثابت ہیں یعنی کہ جن پر تاریخ دانوں کا اتفاق ہے ورنہ اگر غیر مصدقہ تاریخ بھی دیکھی جائے تو کل فتوحات ملا جلا کر سینتیس قلعے بنتے ہیں تو ساتھیو یہ تھی عثمان غازی کی زندگی میں فتح ہونے والے قلعوں کی معلومات دوستو زندگی میں بڑے بڑے مضوعات پر کالم لکھے ہیں مگر اس موضوع پر لکھنا بہت مشکل کام تھا کیونکہ اس پر بہت زیادہ ریسرچ کی گئی ہے میں امید کرتا ہوں آپ کو ہماری یہ کاوش پسند آئی ہوگی آپ ہمارے مزید آرٹیکل بھی ضرور پڑھیں

ہمارے مزید آرٹیکل پڑھنے کے لیے ابھی ان تصاویر پر کلک کریں اور ان عنوانات پر آرٹیکل پڑھیں

عثمان غازی کون تھے اور خلافت عثمانیہ کی بنیاد کیسے رکھی؟
عثمان غازی کا تعارف بائیوگرافی
Bala Khatoon History In Urdu
Bala Khatoon History In Urdu

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button