ہماری ویب سائٹ پر خوش آمدید دوستو حضرت انسان نے سفر کو کم سے کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے پچھلے زمانے میں سفر پیدل کیا جاتا تھا پھر سواری کے طور پر خچر اور گھوڑوں کا استعمال کیا جانے لگا
جہاں سمندری سفر کے لیے کشتی اور جہاز کی ایجاد ہوئی وہیں زمینی سفر کے لیے پہیوں والی گاڑیاں استعمال کی گئیں اور ہوائی سفر کے مختلف قسم کے جہاز جن کی ایک اپنی الگ تاریخ ہے۔ دوستوں گیارہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو مملکت سعودی عربیہ کی طرف سے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان حرمین ریلوے کے نام سے ایک ریلوے سروس شروع کی گئی۔
سعودی ریلوے مکہ سے مدینہ
جس میں حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ حجاز کے ساحلی شہر جدہ کو بھی ایک ٹرین نیٹ ورک سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح حجاج حج اور عمرے کے لیے حرمین ریلوے کا استعمال کریں گے۔ اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے ٹرین سروس شاید پہلی مرتبہ شروع کی گئی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے تاریخ میں تقریبا ایک سو دس سال قبل عازمین حج اور عمرہ کے لیے ٹرین سروس قائم کی گئی تھی
خلافت عثمانیہ حجاز ریلوے پروجیکٹ
جو زمانے کی گردش میں آکر جلد ہی بند ہو گئی اور آج بہت کم لوگ اس ٹرین سروس کے بارے میں علم رکھتے ہیں جسے تاریخ کی کتابوں میں حجاز ریلوے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حجاز ریلوے کیا تھا اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اس منصوبے کو بنانے والا کون تھا دوستوں حجاز ریلوے حرمین شریفین کے ساتھ ساتھ عظیم سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا بھی ایک روشن اور تابناک باب ہے یہ وہ سروس تھی جس نے زائرین حرمین کا دو ماہ کا سفر کم کر کے یکا یک صرف پچپن گھنٹوں تک محدود کر دیا تھا اور اسی وجہ سے سفری اخراجات بھی دس گنا گھٹا دیے تھے
یہ حجاز ریلوے کی تعمیر کا آغاز یکم ستمبر سن انیس سو میں ہوا اور اس کی تعمیر شروع کرائی عثمانی فرما بردار سلطان عبدالحمید ثانی کے تخت نشین ہونے کے پچیسویں سالگرہ کے موقع پر اور ٹھیک سال بعد اسی تاریخ یعنی کہ یکم ستمبر انیس سو آٹھ کو دمشق سے مدینہ منورہ تک تیرہ سو بیس کلومیٹر ریلوے لائن مکمل ہوئی اور پہلی ٹرین عثمانی عمائدین سلطنت کو لیے دمشق سے روانہ ہوئی مکمل منصوبہ دمشق سے لے کر مکہ مکرمہ تک ریلوے لائن بچھانے کا تھا۔